Latest News

Monday, 26 February 2018

"آپ پاکستانی نہیں لگتے، آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں؟"


  • "آپ پاکستانی نہیں لگتے، آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں؟"

  • يہ الفاظ ملکہ برطانیہ کے ہیں جو انہوں نے انیس سو چون میں پاکستان کے پہلے عظیم فاسٹ باؤلرفضل محمود سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہے تھے ۔ فضل محمود قدرت کی صناعی کا حسین نمونہ تھے جن کی نیلی آنکھیں، طویل قامت، مضبوط جسم اورخوبصورت بال دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے تھے ۔ ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر، جو پچاس کی دہائی میں فلم 'بھوانی جنکشن' کی شوٹنگ کے لیے لاہور آئی تھیں اور وہاں ایک کلب میں انہوں نے فضل محمود کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئیں اور پھر خواہش ظاہر کی کہ فضل ان کے ساتھ رقص کریں ۔

  • پاکستان کو انیس سو باون میں ٹیسٹ کھیلنے کا درجہ ملا اور پاکستان نے پہلا مقابلہ ہندوستان کے خلاف دہلی میں کھیلا جہاں اسے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیم کے کھلاڑی بوجھل دل کے ساتھ میدان سے لوٹ رہے تھے کہ باؤنڈری لائن پر کھڑی ایک لڑکی نے کہا "اچھا کھیلے، لیکن ہندوستان سے جیت نہیں سکتے!"۔ یہ جملہ ادا کیا تھا اس وقت کے وزیراعظم ہندوستان جواہر لعل نہرو کی صاحبزادی اندرا گاندھی نے، جو بعد ازاں خود بھی وزیراعظم بنیں اور اس جملے کے مخاطب تھے پاکستان کے نائب کپتان فضل محمود ، جنہوں نے اپنی آپ بیتی " فرام ڈسک ٹو ڈان" میں اس کا ذکر کیا ہے۔ فضل نے اس طعنے کا جواب لکھنؤ میں کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں دیا، پہلی اننگز میں 5 اور دوسری اننگزمیں 7 یعنی کل 12 وکٹیں لے کر، جس کی بدولت پاکستان نے ایک اننگز اور 43 رنز کے بڑے مارجن سے مقابلہ جیت کر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اپنی پہلی فتح درج کروائی۔

  • اس فتح کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ انیس سو اڑتالیس میں ہندوستان نے فضل محمود کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ راضی ہوں تو دورۂ آسٹریلیا کے لیے ٹیم میں ان کا نام بھی شامل کیا جائے لیکن فضل پر پاکستان کی محبت سوار تھی۔ انہوں نے ہندوستان کی جانب سے کھیلنے سے انکار کردیا، صرف اس امید پر کہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کو بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ ملے گا اور وہ وطن عزیز کی نمائندگی کرسکیں گے۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے انہیں 4 سال انتظار کرنا پڑا اور انہوں نے پہلے ہی دورے میں کارکردگی کے ذریعے اپنی اہلیت ثابت کردی۔ کسی نے کہا تھا کہ کاش فضل ہندوستان کی جانب سے آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے تو ڈان بریڈمین کا اوسط کبھی 99 نہ ہوتا۔

  • بہرحال، لکھنؤ کے اس مقابلے سے کہیں زیادہ شہرت فضل کو اگست انیس سو چون میں لندن کے تاریخی میدان اوول پر ملی۔ یہ پاکستان کا پہلا دورۂ انگلینڈ تھا اور سیریز میں ایک-صفر کے خسارے کے ساتھ ٹیم پاکستان آخری ٹیسٹ مقابلے میں پہنچی تو اس کے لیےکوئی راہ فرار نہ تھی۔ بلے بازوں کی ناکامی نے پاکستان کو مزید پچھلے قدموں پر دھکیل دیا تھا اور باؤلرز کو آخری اننگز میں دفاع کے لیے صرف 168 رنز کا ہدف ملا۔ انگلینڈ پراعتماد انداز میں فتح کی جانب گامزن تھا اور 109 رنز پر اس کے محض دو کھلاڑی آؤٹ تھے۔ اسے صرف 59 رنز کی ضرورت تھی اور 8 وکٹیں باقی تھی۔ اس مرحلے پر کوئی معجزہ ہی پاکستان کو شکست سے بچا سکتا تھا اور اس معجزے کا نام تھا فضل محمود۔ وہ انگلینڈ اور فتح کے درمیان دیوار بن گئے اور پاکستان نے 24 رنز سے یہ مقابلہ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ 

  • اعدادوشمار ہی اس کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کے جیتے گئے 7 مقابلوں میں فضل کا باؤلنگ اوسط صرف 10.69 تھا اور وکٹوں کی تعداد 65 تھی۔ صرف 7 ٹیسٹ میں انہوں نے 9 مرتبہ اننگز میں 5 اور 4 مرتبہ میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔ فتوحات میں آپ نے کبھی کسی باؤلر کی ایسی کارکردگی نہ دیکھی ہوگی، اور نہ سنی۔

  • فضل کی اس کارکردگی کا سبب ان کی بھرپور جسمانی فٹنس تھی۔ ان کے والد نے انہیں سخت محنت کا عادی بنایا تھا۔ روزانہ صبح ساڑھے چار بجے اٹھ کر 5 میل چہل قدمی اور 5 میل دوڑ فضل کا معمول تھا۔ ان کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فضل آج بھی ایک اننگز میں سب سے زیادہ اوورز پھینکنے والے فاسٹ باؤلر ہیں۔ انہوں نے انیس سو اٹھاون کے دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران جمیکا ٹیسٹ میں ایک اننگز میں 85.2 اوورز پھینکے تھے۔ پھر انیس سو باسٹھ کے دورۂ انگلینڈ میں ایک ٹیسٹ کے دوران فضل نے ایک ہی دن میں 45 اوورز کروائے یعنی کہ تقریباً پورے دن وہ ایک اینڈ سے مسلسل باؤلنگ کرواتے رہے۔
  • سر فضل محمود سے دو بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا وہ عظیم اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے، اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں۔۔ آمین

No comments:

Post a Comment

Recent Post